یہ میرا شہر وفا اور میں اکیلا آدمی
میرے لاکھوں آشنا اور میں اکیلا آدمی

ایک ہی سر ہے جھکا سکتا ہوں کس کس کے لئے
ان گنت میرے خد ا اور میں اکیلا آدمی

گھومتا پھرتا ہوں شاید مجھ سا کوئی آن ملے
غم کے میلے جا بجا اور میں اکیلا آدمی

اپنی تنہائی سے بھی ہوتی نہیں اب گفتگو
بے کراں قدِ اَنا اور میں اکیلا آدمی

اس کی رحمت کے ہزاروں در مگر وہ بے نیاز
میرے سو دستِ دعا اورمیں اکیلا آدمی

درد کے الہام نازل ہو رہے ہیں دم بدم
دل کے یہ غارِ حرا اور میں اکیلا آدمی

مل کے حوا سے کیا آباد اسے میں نے قتیلؔ
یہ جہاں میری عطا، اورمیں اکیلا آدمی

--
پاکستان آرٹس کونسل میں کہی گئی قتیلؔ شفائی کی معرکتہ الآرا غزل