Saturday, February 20, 2010
یہ
میرا شہر وفا اور میں اکیلا آدمی
میرے
لاکھوں آشنا اور میں اکیلا آدمی
ایک
ہی سر ہے جھکا سکتا ہوں کس کس کے لئے
ان
گنت میرے خد ا اور میں اکیلا آدمی
گھومتا
پھرتا ہوں شاید مجھ سا کوئی آن ملے
غم
کے میلے جا بجا اور میں اکیلا آدمی
اپنی
تنہائی سے بھی ہوتی نہیں اب گفتگو
بے
کراں قدِ اَنا اور میں اکیلا آدمی
اس
کی رحمت کے ہزاروں در مگر وہ بے نیاز
میرے
سو دستِ دعا اورمیں اکیلا آدمی
درد
کے الہام نازل ہو رہے ہیں دم بدم
دل
کے یہ غارِ حرا اور میں اکیلا آدمی
مل
کے حوا سے کیا آباد اسے میں نے قتیلؔ
یہ
جہاں میری عطا، اورمیں اکیلا آدمی
--
پاکستان
آرٹس کونسل میں کہی گئی قتیلؔ شفائی کی معرکتہ الآرا غزل
Friday, February 19, 2010
ہم سنائیں تو
کہانی اور ہے
یار لوگوں کی
زبانی اور ہے
جو کہا ہم نے
وہ مضمون اور تھا
ترجمان کی
ترجمانی اور ہے
نامہ بر کو کچھ
بھی ہم پیغام دیں
داستاں اس نے
سنانی اور ہے
آپ زمزم دوست
لائے ہیں عبث
ہم جو پیتے ہیں
وہ پانی اور ہے
شاعری کرتی ہے
اک دنیا فرازؔ
پر تیری سادہ
بیانی اور ہے
--
احمد فرازؔ
Wednesday, February 17, 2010
'It's always an inside job', Laxman replied. 'First, the dacoits gave the police ten percent,
then the police started demanding more, twenty, thirty, forty. Finally it was phipty-phipty. Then the police said, "Why
let them do it when we can do it ourselves?" So now the off-duty policemen
are the dacoits.'
--
Excerpt from
"Stranger to History" by Aatish Taseer
Tuesday, February 16, 2010
"Yet it is also true that even in Auschwitz some Jews continued to study the Talmud and observe the traditional festivals, not because they hoped that God would rescue them but because it made sense.
There is a story that one day in Auschwitz, a group of Jews put God on trial. They charged him with cruelty and betrayal. Like Job, they found no consolation in the usual answers to the problem of evil and suffering in the midst of this current obscenity. They could find no excuse for God, no extenuating circumstances, so they found him guilty and, presumably, worthy of death.
The Rabbi pronounced the verdict. Then he looked up and said that the trial was over: it was time for the evening prayer."
--
Excerpt from "A History of God" By Karen Armstrong
Friday, February 12, 2010
"فریزر نے ان
کے بارے میں جو تجزیہ کیا ہے وہ دوسری جماعتوں، فرقوں اور گروہوں سے انہیں مختلف
کر دیتا ہے۔ مثلاً ان کے ہاں کوئی مذہبی طبقہ نہیں ہے، کوئی مذہبی کتاب نہیں ہے کہ
جو ان کی اخلاقی قدروں کو متعین کرے۔ کوئی استاد اور راہنما نہیں ہے کہ جو ان کی نسلی
روایات کی نگرانی کرے ان کی زبان کا کوئی ایک معیار نہیں ہے۔ ہمیشہ خانہ بدوشی اور
گردش میں رہنے کی وجہ سے جہاں جاتے ہیں وہاں کی زبان کے الفاظ ان کی زبان میں
آجاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ واپس جانے کے لئے ان کی کوئی سرزمین نہیں، ہندوستان
سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے، اور نہ ہی وطن کے بارے میں ان کے ہاں ناستلجیا ہے۔
یہی حال ان کا تاریخ سے دلچسپی کا ہے۔ کیونکہ ہمیشہ پھرتے رہتے ہیں۔ اور کسی ایک
جگہ سے تعلق نہیں، اس لئے یہ کسی قوم یا سرزمین کی تاریخ کا حصہ بھی نہیں ہیں۔ نہ
ہی انہیں اپنی تاریخ سے کوئی لگاؤہے اور نہ ہی ماضی سے اپنہ رشتہ بناتے ہیں۔ ان
خصوصیات کی وجہ سے جپسی گروہ ایک ایسے کردار اور خصوصیت کا حامل ہے جودوسروں کے
ہاں نہیں ہیں۔"
ڈاکٹر
مبارک علی کی تصنیف "بدلتی ہوئی تاریخ"سےاقتباس۔