کتنے شعر ہیں مٹائے لکھ کے اس خیال سے

سب شناسا ہو نہ جائیں اندرونِ حال سے

 

برق اور کیمیا کے ذہن میں وبال سے

ہم نے کر دئے کرشمے سوچ کے کمال سے

 

لاکھ صدیوں میں ملا ہے لاشعور کا شعور

سوچ باہر آرہی ہے ارتقائی جال سے

 

وہ ہی ختنے ، وہ ہی روزے، وہ ہی قربانی وہ حج

کچھ نیا آیا نہیں ہے پانچ ہزار سال سے

 

وہ ہی فتوے، وہ ڈراوے، وہ نصیحتیں، وہ درس

حرفِ آخر کو بچاتے ہیں نئے سوال سے

 

اتنے دل دکھا کے خود کو معاف کر سکو گے تم ؟

کچھ تو احتیاط برتو سچ کے استعمال سے

 

چاہے فردا کی فکر میں گم رہے حمادؔ پر

دوست، رشتے، شاعری، نکلے نہیں خیال سے