"حفیظ جالندھری جو ہمارے بزرگ شاعر تھےوہ ایک طرح سے مشاعرے میں شاعروں کے صدر تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ کلام سنانے کے ساتھ ساتھ تقریر بھی کر جاتے تھے ۔ اور جملہ بازی بھی کر جاتے تھے۔ انہوں نے مناسب سمجھا کہ مشاعرے کے صدر لال بہادر شاستری سے تھوڑی سی بے تکلفی کریں۔ چنانچہ باتیں کرتے کرتے وہ کہنے لگے کہ یار شاستری  ! سنو یہاں  ایسے شعر نصیب نہیں ہوئے ہوں گے۔
اس جملے پر شاستری صاحب نے صرف آنکھیں حفیظ صاحب کی طرف کرے دیکھا اور کوئی رد عمل نہیں دیا۔ لیکن حفیظ صاحب نے دیکھ لیا کہ ان کی آنکھوں میں کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے پہلے تو پبلک کی طرف مخاطب ہو کر شعر سنایا اور پھر صاحب صدر کی طرف منہ کر کے انہیں جناب شاستری صاحب کہہ کہ مخاطب کیا۔ اس وقت شاستری صاحب کے چہرے پر بشاشت آئی اور انہوں نے سر ہلا کر کہا کہ ارشاد فرمائیے۔
میں نے اتنا بلیغ خاموشی والا آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ خاموش رہ کر باتیں کرنے والا چہرہ شاستری کا تھا۔
حفیظ صاحب کا واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے پہلے جملے میں گستاخانہ انداز اختیار کیا تھا اور وہاں کے ایک معزز شخص کو یار شاستری کہہ کر مخاطب کیا جس سے کہ ان کی بے تکلفی بھی نہیں تھی۔ کوئی اور شخص ہوتا تو اس کے چہرے پر ناگواری کی شکنیں آتیں لیکن شاستری صاحب نے اپنی خاموشی سے اور صرف حفیظ صاحب کی طرف دیکھ کر ہی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر دیا۔ اور جب اگلی بار حفیظ صاحب نے کہا کہ جناب شاستری صاحب ! شعر ملاحظہ فرمائیے تو انہوں نے اپنے چہرے کے تاثر دیتے ہی پچھلے غصے کو بھلانے کا اظہار کر دیا۔"

قتیلؔ شفائی کی آپ بیتی "گھنگرو ٹوٹ گئے" سے اقتباس